افریقیوں سے جماعت احمدیہ کی بدسلوکی

سندھ کی زمینیں ہوں یا افریقہ کی سرزمین ہر ہینڈ پمپ جماعت کی زمینوں ۔ مشن اور مربی ہاوس میں لگائے جاتے ہیں ، عام پبلک مقامات پر بہت کم تعداد میں ہینڈ پمپ لگائے جاتے ہیں ۔محض اس لئے کہ بتایا جاسکے کہ دیکھیں ہم نے ہینڈ پمپ لگائے ہیں ۔ فنڈ اکٹھے کرنے کے علاوہ لو گ انفرادی حیثیت میں الگ سےچندہ دیتے ہیں اگر کسی نے اپنےوالدین کےنام پر لگوانے ہوں ۔



 افریقہ کے ایک ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے پبلک میں ایک نلکا نہیں لگایا گیا ۔ جو بھی لگائے وہ سب جماعت کےاپنے انڈر ہیں۔اس سلسلہ میں ایک سروے انفرادی طور پر کیا گیا یعنی جماعت کی طر ف سے کبھی اس قسم کے سروے کا ہومیونٹی فرسٹ کے تحت کسی کو خیال ہی نہیں آیا ۔ آدھے سے زیادہ ہینڈ پمپ ناکارہ ہوچکے ہیں جو مختلف این جی اوز یا حکومت نے لگائے۔ اگر آپ ہینڈ پمپ کے نام پر پیسے اکٹھے کر رہے ہیں تو کیوں ان دوردراز علاقوں کا سروے نہیں کرتے اور وہاں یہ نلکے کیوں نہیں لگاتے جب کہ ان پر آدھے سے زیادہ کام ہوچکا ہے صرف ایک نلکا ہی لگانا ہے ۔ مگر آج تک کسی کو اس کا بھی خیال نہیں آیا جب کہ اس پر خرچ محض تین سے چا ر سو ڈالر تک ہے ۔اگر ایک مکمل نلکا لگایا جائے تو ایک ہزار ڈالر خرچ ہے ۔ تمام اخرجات ملا کر بھی کچھ نہ کچھ رقم بچ جاتی ہے ۔ سو سے ڈیڈھ سو ڈالر کا ایک نلکا ہے ، مزدور کا کنویں کھودنے اور دیگر اخراجات کا خرچ اس کے علاوہ ہے ۔ پاکستان میں ایک عام نلکا لگانے کا خرچ محض بیس سے بچیس ہزار ہے ۔ اگر کسی افریقی ممالک میں پاکستانی ہوں تو وہ زیادہ ان سے گھلتے ملتے نہیں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے ۔ یہ بات افریقی بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زمین پر بیٹھنے کی بجائے الگ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں ۔ اور ناروا سلوک کرتے ہیں ۔ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں ۔ افریقہ میں احمدی محض نام کے ہیں انہوں نے کتب وغیرہ نہیں پڑھیں ۔ زیادہ تر افریقی تین چار شادیوں یا بغیر نکاح خواتین رکھنے کی پیداوار ہیں بہت سی پاکستانی خواتین کو علم ہی نہیں کہ افریقہ میں ان کے شوہروں نے وہاں کتنی شادیاں کر رکھی ہیں ۔ افریقی احمدیوں کی اتنی آبادی ایسے ہی نہیں بڑھ گئی ۔افریقی عیسائی مذہب سے جزباتی طور پر وابستہ ہیں وہ آسانی سے مذہب نہیں تبدیل کرتے ۔ گاوں کے گاوں احمدی ہونے کی خبریں بھی جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ افریقہ میں احمدی نہیں ہوتے مگر جھوٹی رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ۔ ان لوگوں کو اپنے روزگار کی فکر ہے دو وقت کی روٹی کی فکر ہے جو انہیں کم از کم ایک دن چرچ سے مل جاتی ہے ۔ وہاں پر تو نئی نسل بھی مسلم سے عیسائی ہورہی ہے وہ کیسے احمدیت کی طرف آسکتے ہیں، جلسوں پر عام ان پڑھ افریقی ہی بلائے جاتے ہیں پڑھے لکھے انڈین لبنان انڈونیشیا اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے غیر ملکی ان جلسوں میں کبھی شرکت نہیں کرتے ۔ جبکہ انڈین کے افریقہ میں کاروبار ہیں دوستیاں ہیں مگر انہیں کبھی جلسوں اور اجلاس پر دعوت ہی نہیں دی جاتی ۔ وہی بے چارے غریب افریقی بسوں میں کھانے کے لئے بھر بھر کے لائے جاتے ہیں ۔ جو تعداد میں کم ہوتے ہیں مگر مرکز میں تعداد بڑھا چڑھا کر بتائی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فنڈ اپنے نام سے ایشو کر سکیں ۔ اگر احمدیوں کی تعداد اتنی بڑھ رہی ہے تو جلسوں میں حاضری کیوں کم ہورہی ہے جو بمشکل ہزار کے قریب ہوتی ہے ۔ جھوٹے واقعات سنا سنا کر انہیں متاثر کیا جاتا ہے مگر کم ہی ہیں جو اثر لیتے ہیں ۔


افریقہ کے ایک ملک میں جماعت پچھلے پچاس سا ل سے زائد سے قائم ہے مگر اب تک وہاں ٹوٹل تقریبا سات نلکے لگائے گئے ہیں اور وہ بھی ذاتی زمین پر ،۔۔۔ سکول ، ہسپتال ، کلینک وغیرہ میں کسی بھی قسم کا علاج یا داخلہ فری نہیں ہے ، ایک ہزار پرچی کے پیسے چارج کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں پرچی سو سے دوسو روپے ہے۔ کلینک سے پیسہ کمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے جائیں ۔ سکول میں جماعتی تعلیم بھی دی جاتی

Comments